Home » Article » شانگلہ میں ق لیگ کی جیت………..تحریر: نجیم شاہ

شانگلہ میں ق لیگ کی جیت………..تحریر: نجیم شاہ

ضلع شانگلہ میں مسلم لیگ ق کے سابق ایم پی اے حاجی ظاہر شاہ کی وفات سے خالی ہونے والی حلقہ پی ایف 87کی نشست پر ضمنی الیکشن ق لیگ کے محمد ارشاد خان نے جیت لیا۔ حاجی ظاہر شاہ مرحوم کی وفات کے بعد خالی ہونے والی اس نشست پر کل آٹھ اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ مسلم لیگ ق کی طرف سے حاجی ظاہر شاہ مرحوم کے صاحبزادے کو ٹکٹ دیا گیا تھا جنہیں شیرپاؤ گروپ کی حمایت بھی حاصل تھی جبکہ دیگر اُمیدواروں میں اے این پی اور پی پی پی کے مشترکہ اُمیدوار محمد یار خان، جماعت اسلامی کے فدا محمد خان ایڈووکٹ، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا راحت حسین جبکہ آ زاد اُمیدوار عماد احمد خان، محمد طاہر خان، نذر محمد اور نذیر احمد شامل تھے۔اس ضمنی الیکشن میں اصل مقابلہ ق لیگ کے محمد ارشاد خان اور اے این پی کے محمد یار خان کے درمیان تھا۔ ضمنی الیکشن ہارنے والے اے این پی کے محمد یار خان کو پیپلز پارٹی کے علاوہ ن لیگ کی مقامی قیادت کی حمایت بھی حاصل تھی ۔شانگلہ کے ضمنی الیکشن میں جہاں مسلم لیگ ق اپنے اُمیدوار کی وفات کے بعد خالی ہونے والی اس نشست کو دوبارہ جیتنے کیلئے پراُمید تھی، وہیں حکمران جماعت اے این پی نے بھی اپنے اُمیدوار کو جتوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ شانگلہ مسلم لیگ ق کے صوبائی صدر اور قومی اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئر امیر مقام کا آبائی علاقہ ہے ۔ دو بار ایم این اے منتخب ہونے کے باعث انہوں نے اس علاقے میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے جبکہ حالیہ سیلاب کے دوران بھی انہوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی اپنے ذاتی فنڈ سے راستوں کی بحالی اور متاثرین سیلاب کی مدد کی۔ اس لئے مسلم لیگ ق اس حلقے میں ضمنی الیکشن جیتنے کیلئے ایک مضبوط جماعت تھی جبکہ دوسری طرف اے این پی یہ دعویٰ کرتی رہی کہ عوام کی اکثریت چونکہ عوامی نیشنل پارٹی کے پاس ہے اس لئے ضمنی الیکشن میں جیت بھی اُن کے اُمیدوار کی ہی ہوگی۔انجینئر امیر مقام ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں ۔ وہ سیاست کے داؤ پیچ بھی بہتر سمجھتے ہیں۔ ایم این اے منتخب ہونے کے بعد ضلع بھر میں ریکارڈ ترقیاتی کام اُن کی عوام دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جب کوئی کھلاڑی میدان میں اُترتا ہے تو اُسے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اُس کے جیتنے کیلئے ماحول کتنا سازگار ہے۔ انجینئر امیرمقام بھی ایک منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی ہیں۔ اُنہیں اس بات کا پہلے ہی ادراک ہو گیا تھا کہ شانگلہ کی نشست مسلم لیگ ق ہی جیتے گی اس لئے الیکشن سے دو دن قبل انہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اگر اس ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ق کا اُمیدوار ہار گیا تو وہ ہمیشہ کیلئے سیاست چھوڑ دیں گے۔ اس ضمنی الیکشن میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ق اور عوامی نیشنل پارٹی کے اُمیدوار کے درمیان تھا۔ مسلم لیگ ق کے محمد ارشاد خان انیس ہزار دو سو تیس ووٹ کے ساتھ پہلے جبکہ اُن کے قریب ترین حریف اے این پی کے محمد یار خان گیارہ ہزارہ آٹھ سو ووٹ حاصل کر سکے۔محمد ارشاد خان کی کامیابی سے ظاہر ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ ق کا عوام میں ایک بار پھر اعتماد بحال ہو رہا ہے ۔ق لیگ اس وقت ملک کی تیسری بڑی جماعت ہے۔ چاروں صوبوں میں اس کی نمائندگی موجود ہے۔ ہزارہ جسے مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اس جماعت کی غلط پالیسیوں کی بدولت وہاں بھی مسلم لیگ ق بہتر پوزیشن میں ہے۔ پنجاب کو اگر مسلم لیگ کا گڑھ کہا جاتا ہے تویہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ق لیگ بھی مسلم لیگ ہے۔ ماضی میں ق لیگ کو کبھی قاتل لیگ اور کبھی مشرف لیگ کے خطابات سے نوازا گیا لیکن ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں اس وقت یہ واحد جماعت ہے جو ایک مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف عمران خان اور دوسرے ق لیگ کو ملک کی اصل اپوزیشن قرار دے رہے ہیں بلکہ عوام میں بھی ایک بار پھر اس جماعت کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ شانگلہ میں صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ق لیگ کی جڑیں اب بھی عوام میں مضبوط ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی جو خود کو پختونوں کی نمائندہ جماعت کہلواتی ہے، اس جماعت کی غلط پالیسیوں کی بدولت آج صوبے کے عوام اس پارٹی سے نالاں نظر آتے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے بعد عوام نے اے این پی کو آزمایا لیکن یہ جماعت بھی عوام کے معیار پر پورا نہ اُتر سکی۔ شانگلہ کا ضمنی الیکشن اس کا منہ بولتا ثبوت ہے جہاں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مقامی قیادت کی حمایت کے باوجود اے این پی کا اُمیدوار ہار گیا۔فروری 2008ء کے عام انتخابات میں صوبہ کے عوام کی اکثریت نے اپنا حق رائے دہی اے این پی کے حق میں اس لئے استعمال کیا تھا کہ وہ بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور امن و امان کی ابتر صورتحال سے سخت مایوس تھے۔ اے این پی نے 2008ء کے انتخابات میں اپنی مہم کودہشت گردی کے خاتمے، عوام کے حقوق کیلئے عملی اقدامات کرنے اور صوبہ کے نام کی تبدیلی پر منتج کیا تھا۔اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اے این پی نے صوبہ کا نام تو تبدیل کرا دیا لیکن تین سالہ دور حکومت میںوہ خیبر پختونخواہ میں شدت پسند اور امن و امان کی صورتحال بہتر کرانے میں ناکام رہی۔ ہزارہ کے عوام پہلے ہی اس پارٹی سے نالاں ہے جبکہ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی اے این پی کی مقبولیت کا گراف گرتا جا رہا ہے۔ شانگلہ کے ضمنی الیکشن میں اس پارٹی کے اُمیدوار کا ہارنا یقینا اے این پی کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں ہے ۔