Home » Article » بجلی گیس کا بحران اور عوامی احتجاج ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر:سید احمد علی رضا

بجلی گیس کا بحران اور عوامی احتجاج ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر:سید احمد علی رضا

ملتان،فیصل آباد،لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بجلی اور گیس کی فراہمی میں تعطل اور بدترین لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پرتشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ توانائی کا بحران طویل عرصے سے جاری ہے لیکن حکومت ابھی تک کوئی طویل المدت یا قلیل المدت منصوبہ قوم کے سامنے پیش نہیں کرسکی ہے۔ بجلی اور گیس کی بندش کے خلاف احتجاج کی شدت اِس وقت پاکستان کے ایک اہم صنعتی مرکز فیصل آباد اور،، مدینۃ الاولیاء،، ملتان میں ہے۔ حکومت کو صورتِ حال کی سنگینی کا اسی وقت اندازہ کرلینا چاہئے تھا جب گزشتہ سال فیصل آباد کے ایک صنعت کار اور برآمدکنندہ نے بجلی کی معطلی اور لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی طور پر خودسوزی کی دھمکی دی تھی۔ فیصل آباد سے شروع ہونے والا احتجاج ملتان میں شدید ترہوگیا ہے ۔ موجودہ احتجاجی لہر کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا آغاز چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے کارکنوں نے کیا ہے جو 12 سے 20 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بے روزگاری کا شکار ہیں۔ فیصل آباد پاور لومز کا بڑا مرکز ہے۔ چھوٹی صنعتوں کے پاس مہنگی بجلی کا متبادل بھی موجود نہیں ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کی تنظیم کے رہنما مسلسل آواز بلند کررہے تھے کہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں مفلوج ہورہی ہیں جبکہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے مسلسل گھریلو چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے ساتھ بڑی صنعتیں بھی متاثر ہورہی ہیں اس صورتِ حال نے بے روزگاری اور مہنگائی کے ساتھ سماجی مسائل اور ذہنی انتشار میں بھی اضافہ کیا ہے جس کا احساس نہ حکمرانوں کو ہے اور نہ ہی سیاسی قائدین کو۔ موجودہ حکومت نے یہ وطیرہ اختیار کرلیا ہے کہ وہ توانائی کے بحران اور عوام کے اقتصادی مسائل کا ذمہ دار سابق حکومت کو قرار دے رہی ہے لیکن وہ یہ بتانے میں ناکام ہے کہ اس کے پاس سابق حکومت سے مختلف کیا پالیسی ہے یا موجودہ حکمرانوں کا طرزِ حکمرانی سابق حکمرانوں سے کس حد تک مختلف ہے۔ یہ مسئلہ ایک عشرے سے زیادہ مدت سے چل رہا ہے اور اس دوران صرف ایک بار پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے لیکن اس کے باوجود عوامی احتجاج کا ہدف پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور وہ عوام کا نعرہ لگاکر اور عوامی حکومت کے دعوے کے ساتھ عوامی احتجاج کے رخ کو نہیں موڑ سکتی۔ اس وقت اس بحران کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ احتجاج پرتشدد ہوگیا ہے اور تاجر و صنعت کار سول نافرمانی کا اعلان کررہے ہیں۔ دوسری طرف بجلی اور گیس بحران کے ذمہ دار جنہوں نے قوم کے وسائل کو بری طرح لوٹا ہے اب عوامی احتجاج کو ریاست کی طرف موڑنے کی سازش کررہے ہیں۔ بجلی کا بحران پورے ملک کا مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں بجلی کی فراہمی کے تمام اداروں کا کردار مجرمانہ ہے۔ یہ سارے لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے خلاف عوامی مقدمہ چلایا جائے۔ لیکن یہ کام وہ لوگ نہیں کرسکتے جو عوامی نمائندگی کا دعوی کرنے کے باوجود عملا عالمی ساہوکاروں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کے بحران اور اس کے نرخوں میں اضافے کا آغاز 1990میں اس عوام دشمن فیصلے کے نتیجے میں ہوا جس کے تحت واپڈا کو نئے بجلی گھر لگانے سے روک دیا گیا اور ادارے کو مجبور کردیا گیا کہ وہ نجی شعبے میں قائم بجلی گھروں سے مہنگے داموں بجلی خریدے۔ اس کے بعد بجلی اور توانائی کے بارے میں تمام پالیسی سازی ان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جو اس شعبے کی مبادیات سے بھی واقف نہیں تھے۔ ان دنوں میڈیا میں جو لوگ توانائی کے بحران کے جلد حل ہوجانے کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں انکی فہرست پر نظر ڈال لی جائے تو اس میں ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جو اس مسئلے کے پیدا ہونے کے اسباب اور اس کے حل سے واقف ہو ان کو جو بھی تفصیلات بتادی جائیں وہ ان کے بارے میں نقد و تبصرہ کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ شوکت ترین،راجہ پرویز اشرف اور ان کی وزارتوں کے سیکریٹری صاحبان اس شعبے کے مسائل کو حل کرنے کی تیکنیکی مہارت نہیں رکھتے۔ اسی طرح واپڈا، اوگرا کی سربراہی بھی ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ سارا بحران اس عالمگیریت کے منصوبے کے نفاذ کا شاخسانہ ہے جس کے تحت پاکستان کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کردیا گیا ہے اور اس پالیسی کی تشکیل کے ذمہ دار معین قریشی سے لے کر شوکت ترین تک نام نہاد درآمدی ماہرینِ معیشت ہیں۔ جب مسئلہ ناقابلِ حل ہوتا جاتا ہے تو کچھ ہنگامی اقدامات کئے جاتے ہیں تاکہ عوامی احتجاج کو ٹھنڈا کیا جاسکے۔ یہی صورتِ حال اِس وقت بھی ہے۔ ملک میں ہر کچھ دن بعد جب بجلی کا مسئلہ سنگین ہونے لگتا ہے تو حکومت کچھ ہنگامی اقدامات کرتی ہے۔ لیکن وہ اِس مرحلے پر ہنگامی اقدام کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں گھریلو صنعتی اور تجارتی ضروریات کی تقسیم بھی بے معنی ہے ۔پالیسی سازی کرنے والے افراد انتظامی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ تیکنیکی اور جو بریفنگ دے دی جاتی ہے یا جو سبق پڑھا دیا جاتا ہے اسے رٹو طوطے کی طرح رٹنے لگتے ہیں۔ اس بارے میں بڑی سیاسی جماعتوں نے جو مختلف اوقات میں حکومتوں میں رہی ہیں کبھی بھی ہوم ورک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ ان جماعتوں میں جو تھوڑے بہت ماہرین موجود ہیں ان سے بھی استفادہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی اس لئے کہ پاکستان میں حکومتوں سے وابستہ افراد چاہے وہ سیاسی شخصیات ہوں، ٹیکنوکریٹ کے نام پر نام نہاد ماہرین ہوں یا بیوروکریٹ…. ان سب کا تعلق پاکستان اور اس کے عوام سے منقطع ہوچکا ہے۔ پاکستان میں توانائی اس پالیسی سے منسلک ہے جس کے تحت قومی پالیسیاں چاہے وہ داخلہ ہوں یا خارجہ، اقتصادی ہوں یا تعلیمی، ابلاغی ہوں یا تہذیبی…. ان سب کے فیصلے باہر ہوتے ہیں اور ملک میں موجود افراد اور طبقات ان کے آلہ کار بن گئے ہیں اور اس میں سیاست دان بیوروکریٹ اور ٹیکنوکریٹ کی کوئی تقسیم نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت پاکستان اور بالخصوص صوبہ پنجاب کے شہروں میں بجلی کی فراہمی کے بحران کے حوالے سے جو نئی احتجاجی لہر پیدا ہوگئی ہے سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے بامعنی بنائیںتاکہ مسئلہ حل ہوسکے۔