ہم اچانک کسی کے بدلے ہوئے روئیے کی وجہ سے ردِ عمل کے طور پر خود کو سمیٹ لیتے ہیں جس سے بہت سی اچھی امیدیں وابستہ کی ہوئی ہوتی ہیں، بہت سے امیدیں لگائی ہوئی ہوتی ہیں بہت سے توقعات وابستہ کی ہوتی ہیں وہ جب ان توقعات اور امیدوں پر پورا نہیں اترتا تو ہم اُس شخص کی مجبوریوں کا جائزہ لئے بغیر ردِ عمل کے طور پر سمٹنا شروع ہو جاتے ہیں ہم میں سے بعض لوگ تو دوسروں کو بھی سمٹنے کی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں۔بس کی دنیا مطلب کی ہے۔ یہاں کوئی کسی کا یار نہیں۔بس جی ہم نے تو یاریوں، دوستیوں سے ویسے ہی کنارہ کشی اخٹیار کر لی ہے، کیا رکھا ہے اِن باتوں میں، جب کوئی مشکل وقت میں کام ہی نہ آئے تو کیا فائدہ ان یاریوں دوستیوں کا۔ لیکن یہ تنگ نظری ہوتی ہے اور ایسا کرنا ہرگز دا نشمندی نہیں ہوتی۔ لوگ ایسا کرتے ہوئے اپنے دوستوں کے ساتھ گزرے ہوئے دلکش اور خوشگوار لمحات کو بھی بھول جاتے ہیں۔ وہ اپنی دیرینہ دوستی کو بھی چند لمحوں میں تیاگ دیتے ہیں حالانکہ دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینے سے یہ نظر آنے والے پہاڑ حقیقت میں کوئی چھوٹی سی چوہیا نکلتی ہے۔جب ہم اپنے آپ کو سمیٹتے ہیں تو گویا دوسرے کے جھانکنے والی اپنے ارد گرد کی کھڑکیاں ہی بند کر دیتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد ایسی رکاوٹیں(Hurdles) کھڑی کر لیتے ہیں کہ دوسرے کو ایک فاصلے پر رہنے کے لئے مجبور کر دیتے ہیں۔اب دوسرے صرف اسی صورت میں کسی کی رکاوٹوں(Hurdles) کو عبور کرتے ہیں جب کسی کے شانے پر کوئی شہد لگا ہوا نظر آئے۔ دوسرے کو اس شخص سے کسی مفاد کی توقع ہو ورنہ دوسرے کو کیا پڑی ہے کہ وہ ان رکاوٹوں (Hurdles) کو عبور کرتاپھرے۔اگر کوئی موڈ بنائے پھرتا ہے تو پھرتا رہے۔اُس کے موڈ بنا لینے سے زمانے کے چلن میں کوئی تبدیلی نہیں آ جاتی۔ بعض اوقات کسی انتہائی صورت حال میں کسی سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑے تو ایسا کرنے میں حرج نہیں لیکن تعلقات کا یہ منقطع کرنا عقلی فیصلہ ہو نہ کہ وقتی اشتعال میں آکر ردِعمل کے طور پر ایسا کیا جائے۔جو لوگ دوسروں کے تحریک دلانے پر اپنے آپ کو سمیٹتے ہیں وہ بہت کمزور لوگ ہوتے ہیں۔دوسرا شخص جب کسی کے لئے زہر اگلتا ہے تو اس شخص کا اس شخص کے بارے میں اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے اس کا اپنا ایک تعلق ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایسا کرتا ہے، وہ زہر اس لئے اُگل رہا ہوتا ہے کہ اِس کے پیچھے ایک بیک ہسٹری ہوتی ہے۔اس طرح کے مبلغ ہمیں گلی محلے کے چوکوں پر دکانوں کے سامنے لگے پھٹوں پر بیٹھے ملیں گے، چوپالوں ، اور دفتروں میں ملیں گے جو زہر کو ٹافیاں بنا بنا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔وہ مایوسیوں کو یوں پھیلا رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی ثواب اور نیکی کا کام کر رہے ہوں۔ایک دوسرے سے دوری کی تبلیغ ،انسانوں سے انسانوں کو الگ کرنے کی تبلیغ رحمانی نہیں بلکہ شیطان کا کام ہے لیکن کچھ بڑے، سیانی عمر کے لوگ اس کام کو کارِ خیر سمجھ کر کر رہے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جن ناپختہ ذہنوں میں وہ یہ زہر انڈیل رہے ہیں انہوں نے تو زندگی کی جنگ ابھی تک لڑنا ہے، وہ انہیں زرہ بکتر پہنانے کی بجائے انہیں ہتھیار پھینک کر بھاگ جانے کی تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں۔ دوستیوں کو پائیدار ہونا چاہیے اور دشمنیوں کو ناپائیدار ہونا چاہیے۔ دوستیوں کے بندھن اتنے نازک نہ ہوں کہ دوسرے کے کہے سنے سے ہی توڑ دئیے جائیں۔یہ بھی ایک سفر ہوتا ہے اور سفر کے دوران تو راستے میں کانٹوں نے بھی آنا ہوتا ہے اور پھولوں نے بھی آنا ہوتا ہے۔کبھی نشیب آ جاتا ہیں کبھی فراز آ جاتے ہیں۔سو ہماری دوستی کی گاڑی کے شاک اتنے مضبوط ہونے چاہییں کہ وہ یہ سب جھٹکے برداشت کر سکیں۔دراصل ہمیں اپنے آپ کو سمیٹنے کی نوبت ہی اُس وقت آتی ہے جب ہم دوسروں سے لینے والے بنتے ہیں۔اگر ہم دوسروں سے اپنی توقعات گھٹاتے جائیں لیکن دوسروں کی توقعات پر پورا اترتے جائیں تو ہمیں کبھی بھی اپنے آپ کو سمیٹنے کی نوبت نہ آئے۔اگر کبھی ایسی نوبت آجائے کہ دوسرا ہماری توقع پر پورا نہ اُترے تو اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ میں اِس صورت حال میں کیا کرتا، اگر یہ جواب آئے کہ میں بھی یہی کرتا تو اپنے آپ کو سمیٹنے سے باز آجائیے۔