محمد علی جناح اور ویمبلڈن کی مسجد

تحریر:انعام الحق
ہماری نئی نسل سمیت کئی پاکستان کا نام لینے والے اس بات سے واقف نہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی سنوارنے کا عزم اُٹھانے کے بعد ہندوستان کی سیاست چھوڑ کر کیوں چلے گئے تھے اور جانے کے بعد واپس کیسے آگئے۔جیسے پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ویسے مسلمانوں میں سارے ہی مومن نہیں ہوتے۔ہندوستان کے مسلمانوں میں جنہیں دولت کی لالچ تھی وہ ہندووں سے روپے لے کر منافقت پھیلا رہے تھے اور عوام کے گروح کو اکٹھا کر کے الگ ملک کے خلاف مسلمانوں میں زہر ُاگل رہے تھے ۔مسلمان بھی کسی حد تک اُس وقت کے لالچیوں کے بچھائے جال میں آرہے تھے اور محمد علی جناح اور الگ ملک کے خلاف اندر ہی اندر دشمن پیدا کر رہے تھے۔اُن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو پاکستان بننے سے پہلے قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو پلیداستان بھی کہتے تھے اس کے علاوہ اُنکا یہ بھی کہنا تھا کہ، پاکستان تو دور کی بات ہم پاکستان کی پ بھی نہیں بننے دیں گے،۔خیرقائد اعظم کے ہندوستان کی سیاست چھوڑ جانے سے مسلمانان ہند ایک عظیم لیڈر کی سیاست سے محروم ہو گئے تھے۔لیکن ہندوستان میں بعض دردمند ایسے بھی تھے جو صدق دل سے یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانانِ ہند کی قسمت سنوارنے کی اہلیت رکھنے والا رہنما مایوس ہو کر کیوں چلا گیا؟اس کو واپس لانا چاہئے۔تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اُن دردمندوں میں سر فہرست مرزا بشیر الدین محمود احمد کی شخصیت تھی۔وہ یہ چاہتے تھے کہ قائد اعظم ہندوستانی سیاست میں واپس آئیں اور مسلمانانِ ہند کی قسمت سنوارنے کا جو عزم اُن کے دل میں ہے اُسے تکمیل تک پہنچائیں۔خیر مرزا بشیر الدین نے اپنے ایک قریبی اور بااعتماد شخص مولانا عبدالرحیم دردؔکو اس مقصد کے لئے منتخب کیا اور انگلستان روانہ کیا تاکہ وہ قائد اعظم سے بات کرتے اور اُنہیں ہندوستان کی سیاست میں واپس آنے پر آمادہ کرتے۔23مارچ1932کو مولانا عبدالرحیم لندن گئے اور قائد اعظم سے متعدد ملاقاتیں کی۔قائداعظم نے اُنہیں اپنی بہت سی مجبوریاں پیش کیں مگر اپنی آخری ملاقات میں جو تین گھنٹے تک جاری رہی مولانا عبدالرحیم کی تلقین اور مدلل طریق کے نتیجہ میں محمد علی جناح پھر میدان سیاست میں آنے پر آمادہ ہوگئے اور یہ قرار پایا کہ اس غرض سے محمدعلی جناح 6اپریل1933کو ویمبلڈن کی مسجد فضل لندن میںعید الاضحی کے موقع پر،ہندوستان کے مستقبل،کے متعلق تقریر کریں گے نیزاس تقریر کا سارا انتظام اور نشرواشاعت کا اہتمام مولاناالرحیم خود کریں گے،مولانا اُس وقت فضل مسجد لندن کے امام بھی تھے۔یہ تقریب بڑی دھوم دھام سے منائی گئی اور ہر مکتبہ ء فکر کے ذی اثر لوگوں نے شرکت کی۔انگلستان کے تمام مشہور اخبارات میں اس تقریر کا بہت چرچا ہوا۔تقریر کی ابتداء میں قائد اعظم نے کہا،امام، مسجد فضل، لندن نے ترغیب دی اور اس ترغیب میں اُن کی فصاحت وبلاغت نے میرے لئے کوئی راہ فرار نہیں چھوڑی۔اُن کی پُرزور تحریک کی وجہ سے میں اس سیاسی اسٹیج پر کھڑا ہونے کے لئے مجبور ہوں،چنانچہ سنڈے ٹائمز لندن نے اپنی اشاعت9اپریل1933ء میں لکھا،ترجمہ:میلوزروڈ ویمبلڈن کی مسجد کے میدان میں ایک اور بڑا اجتماع منعقد ہوا جدھر ممتاز ہندوستانی مسلم رہنما محمد علی جناح نے ہندوستان کے مستقبل پر خطاب کیا اور اپنے خطاب میں انڈین وائٹ پیپرز پر قومی نقطہ نظر سے تحفظات کا اظہار کیا۔صدر اجلاس سر اسٹیورٹ سنڈیمن ایم پی نے اس موضوع پر مسٹر چرچل کا مؤقف اختیار کیاجس پر بعض حاضر مسلم طلبانے کُچھ تلخ مظاہرہ کیا مگر مولانا عبدالرحیم دردؔنے اُنہیں رام کر لیا۔،یہ تقریر پریس کی خاص توجہ کا مرکز بن گئی اور اس سے متعلق درج ذیل اخبارات نے تبصرے بھی شائع کئے۔ماڈرن میل،ہندومدراس،ایوننگ سٹینڈرڈ،ایجپٹیئن گزٹ الیگزنڈرا،ویسٹ افریقہ،سٹیٹس مین کولکتا،سنڈے ٹائمز لندن۔اس کے بعد قائد اعظم نے انگلستان کو خیر باد کہہ دیا اور پھر ہندوستان واپس آگئے اور نئے جوش اور ولولہ سے تحریک پاکستان کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں 1947ء میں پاکستان معرض وجودمیں آیا۔قائد اعظم محمد علی جناح سے متعلق اور بہت سے تحقیقات اور یادیں وابستہ اور پوشیدہ ہیں جنہیں عوام الناس اور محمد علی جناح کے عاشقوں کے سامنے لانا ضروری ہے۔خاکسار اس حوالے سے کوشش جاری رکھے گا کہ قائد اعظم کی زندگی سے متعلق پوشیدہ حقا ئق سامنے لاتا رہے۔