ممتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر:غلام عباس

ٹیکسی کو ذرا تیز چلاؤ شمسہ نے آنسوؤں سے بھیگی آنکھیں رومال سے صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔بلال نے توتلی زبان سے پوچھا ۔۔۔۔۔ امی ! ہم کہا جارہے ہیں۔۔۔۔۔ بیٹے تمہارے پاپا کے پاس۔گرمی بہت زیادہ تھی ۔۔۔ سورج آسمان سے زمین پر آگ کے گولے برسا رہا تھا۔ چرند ، پرند حتیٰ کہ حیوان بھی سائے کی تلاش میں سرگرداں تھے ۔ دور دور تک کوئی آدمی نظر نہیں آرہا تھا۔حبس سے دم گھٹتا جارہا تھا۔چھ سات برس کے دو بچے بھینسوں کو سڑک پار کرا رہے تھے۔۔۔ڈرائیور نے کار کو بریک لگائی تو دونوں بچوں نے سوٹوں سے ڈنگروں کو کوٹنا شروع کردیا۔بابا جی یہ بچے سکول نہیں جاتے۔۔۔۔۔۔۔نہیں بیٹی! یہ تو پیدا ہی اس کام کیلئے ہوئے ہیں۔ انہیں سن سٹروک گرمی ، یرقان وغیرہ نہیں ہوتا۔بی بی جی ! ان کو تو بخار بھی نہیں آتا اگر کبھی تھوڑی بہت تکلیف ہو بھی جائے تو دم درود سے فوری ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ان کو دیہاتی زبان میں ،،چھیڑو،، کہتے ہیں یہ صبح سے شام تلک گرمی ہو یا سردی ۔۔۔۔ مال ڈنگر کی دیکھ بھال پر مامور ہوتے ہیں۔زمانہ بدل گیا ہے اب تو چھیڑو بھی ماڈر ن ہوگئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی لڈو کی بازی بھی لگالیتے ہیں ڈرائیور نے راستہ کلےئر دیکھ کر کار دوڑا دی ۔رکئے یہاں سے رائٹ ہینڈ ٹرن کرلیں۔۔۔۔ یہی راستہ بلال کے پاپا کی اکیلی قبر کو جاتا ہے شمسہ نے بلال کو سینے سے لگا کر دھیمی آواز میں کہا۔مگر بیٹی۔۔۔۔ راستہ بہت خراب ہے گاڑی آگے نہیں جاسکتی ڈرائیور نے جواب دیا ۔تیمور کی قبر حسرتوں کے مزار کا نقشہ بنے چپ چاپ مٹی کے ڈھیر کی صورت موجود تھی جس پر کوئی کتبہ نہیں تھا۔بابا جی آپ سڑک پر رکیں میں ابھی بلا ل کو اس کے پاپا سے ملا کر آتی ہوں شمسہ نے کندھے پر پانی والی بوتل لٹکاتے ہوئے کہا۔شمسہ بلال کو اٹھا کر گرتی پڑتی ، مختلف پگڈنڈیوں پر سے ہوتی ہوئی تیمور کی قبر پر پہنچی ۔۔۔۔ پانی کی بوتل پینے کے باوجود بلال کا حلق خشک رہا۔ دو بجنے والے تھے اور ۔۔۔۔شمسہ قبر سے لپٹ کے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔گرم لو اور دھوپ کی شدت سے بلال کاپھول سا چہرہ کملانے لگا اور ادھ موا سا ہوگیا شمسہ کو بھی چکر آنے لگے۔قریب ہی راجباہ بہہ رہا تھا ۔شمسہ نے اپنے بلال کو نہلایا جس سے معصوم بچہ ہشاش بشاش ہوگیا۔شمسہ کا مارے گرمی کے براحال ہورہا تھا۔۔۔۔ چاروں طرف دیکھا تو دور دور تک کوئی آدمی نظر نہ آیا ۔ کئی بار راجباہ میں نہانے کا سوچا مگر کھلے آسمان تلے بے لباس ہونے پر اس کے رونگٹے کھرے ہوگئے۔شمسہ۔۔۔۔شمس کی آگ برساتی ہوئی گرمی کے آگے بے بس ہوگئی ۔۔۔۔۔۔دوبارہ چہار اطراف نظر دوڑائی مگر کوئی بندہ بشر دکھائی نہ دیا اور ۔۔۔۔۔۔تن کے کپڑے اتا کر جلدی سے جسم کو بہتے ہوئے پانی سے ڈھانپ لیا۔شمسہ کو یوں لگا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر پانی انڈیل دیا گیاہو۔ شمسہ بظاہر ٹھنڈے پانی کی لہروں سے دل بہلا رہی تھی لیکن اسے بار بار تیمور کی اور اپنی بے بسی پر رونا آرہا تھا۔اتنے میں بلال کھیلتا کودتا ۔۔۔۔قریب ہی ریلوے لائن پر چلا گیا۔ریل کار ہوا کا سینہ چیرتے ہوئے آرہی تھی ۔ ڈرائیور نے ہارن دیا تو بلال تالیاں بجانے لگا۔ ریلوے ٹریک پر گاڑی آتے دیکھ کر شمسہ کے چھکے چھوٹ گئے ۔ اپنے لباس کا خیال کئے بغیر بلال ۔۔۔۔ بلال کہتے ہوئے ریلوے لائن کی طرف بھاگی۔دو تین بار گری مگر ہمت نہ ہاری ۔گاڑی قریب آرہی تھی اور ۔۔۔۔۔ ماں کی مامتا مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہی تھی۔۔۔ کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ بلال کا پاؤں پھسلا۔۔۔۔۔۔ اور پٹڑی کے باہر پچھلی جانب گرپڑا۔گاڑی گزر گئی ۔ بلال بچ گیا۔ لیکن ۔۔۔۔شمسہ تیمور کے پاس پہنچ گئی ۔ میاں بیوی گاڑی کے دوپہیوں کی مانند ہوتے ہیں شمسہ تیمور بھی گاڑی کے دوپہئے تھے۔ جو بلال کو منزل مقصود تک پہنچائے بغیر زندگی کی پٹڑی سے اتر کر زمین میں دھنس گئے۔