مٹھی بھر دہشت گرد، سخت سیکیورٹی اور محرم الحرام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر:غلام عباس

محرم الحرام کی آمد آمد ہے، ماتمی جلوسوں اور مجالس عزا کے تناظر میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس جناب ذوالفقار احمد چیمہ نے ریجن بھر میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کا حکم صادر کیاہے۔ ایسے میں شہریوں کافرض ہے کہ وہ بھی ارد گرد حالات پرکڑی نگاہ رکھیں۔ دہشت گردوں کی بزدلانہ وارداتوں سے اہالیان پاکستان گھبرانے والے نہیںہیں، موت کاایک وقت مقرر ہے پھر خوف کس بات کا۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا سحرکے وقت مومن کے بہنے والے آنسوؤں سے ڈرو کیونکہ یہ رلانے والے کو تباہ کردیتے ہیں اور جس کے حق میں دعا کرے اس سے آگ کے دریا کو بھی بجھا دیتے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ سحر کے علاوہ بھی پر امن شہری ننھے منے بچے دہشت گردوں کی جانوں کورورہے ہیں۔ انشاء اللہ یہی آنسو جلد ہی انقلاب لائیں گے اور دہشت گرد اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے۔محرم الحرام کے موقع پر مسلمانوں کو آپس میں اخوت و بھائی چارے کا عملی مظاہرہ کرناہوگا۔یوں شرپسند عناصر اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ بلاشبہ اسلام امن وآشتی کادرس دیتاہے۔ امام حسین علیہ السلام کی بے مثال قربانی کو تو غیر مسلموں نے بھی زبردست خراج تحسین پیش کیاہے۔ ہمارا فرض اولین ہے کہ امن وبھائی چارے کی فضا کو ہرحال میں مقدم رکھیں۔ اب سیدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام غیر مسلموں کی نظر میں۔ سروجنی چتوپادھیائے جو بعد میں سروجنی نائیڈو کے نام سے مشہور ہوئیں، کلن برہمنوں کے بنگالی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں نے برملا کہا مجھے فخر ہے ان لاکھوں انسانوں میں میرا نام بھی شامل ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے عظیم کارنامے کی یاد نہایت ادب و احترام سے پوری دنیا میں منا رہے ہیں۔ کربلا کا المیہ تیرہ سوسال گزرنے کے بعدبھی اسی طرح تازہ ہے اوراتناہی دلگداز ہے جتنااس دن تھا جب اسلام کے عظیم ترین رہنماکوشہید کردیاگیاتھا۔دیوان بہادر کرشن لال جھاویری سابق چیف جسٹس بمبئی کہتے ہیں مجھے حسین علیہ السلام ڈے کی تقریبات میں سے ایک کی صدارت کاموقع ملا اورمیں نے دیکھا کہ ہزاروں سامعین نہایت ادب و احترام سے تقریریں سن رہے ہیں۔ سامعین کی توجہ کے میرے نزدیک دو سبب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ کربلاکے واقعات انتہائی المناک ہیںاورہرسننے والا ان سے متاثر ہوتاہے۔ دوسرایہ کہ معرکہ کربلا میں حق اورباطل کامقابلہ ہوا تھااوربظاہر فتح باطل کی قوت کو ہوئی تھی۔ آخرامام حسین علیہ السلام نے یزیدی افواج سے مقابلہ کیوں کیا جبکہ وہ جانتے تھے کہ نتیجہ کیا ہوگا؟یہ سوال لوگو ںکی توجہ اپنی طرف کھینچتاہے۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے گنتی کے چند ساتھیوںکے ساتھ ہزاروں کی تعدادپر مشتمل فوج سے مقابلہ کیا۔ کسی دنیوی مقصد کیلئے نہیں بلکہ حق و صداقت کامعیار قائم کرنے کے لئے۔یہ مثالی قربانی ایک مشعل کی طرح رہتی دنیا تک اندھیروں میںبنی نوع انسان کی راہنمائی کرتی رہے گی۔ دستور کیخسرو ماھی یار قطر پارسیوں کامذہبی سربراہ اعلی کہتا ہے اگر عظیم شہیدوں کی قربانیاں سامنے نہ ہوتیںتو دنیااعلی اخلاق، مذہب اور سچائی سے خالی ہوتی۔ احسان عظیم ہے دنیا پران شہیدوں کاجنہوں نے ذلت کی زندگی پرعزت کی موت کو ترجیح دی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے انسانیت کی خدمت میںاپنی جان کی قربانی دی ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کہتے ہیں حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانی اور جرات کے کارناموں نے گذشتہ تیرہ صدیوں میںبے شمار انسانو ںپر بڑے دور رس اثرات ڈالے ہیں۔ان کارناموں کی یاد منانے میںشمولیت میرے لئے باعث سعادت ہے۔راجندر منچندا نے ان الفاظ میں امام حسین ؑ کو خراج عقیدت پیش کیا
شہ کہتے تھے صف شکنی سے نہیں ڈرتا
بازو میں مرے زور ہے خیبرشکنی کا
زہراء ؑ کا کلیجہ ہوں دل شیر خدا ہوں
سید ہوں نواسہ ہوں رسول ﷺ مدنی کا
اشک اپنے کہیں سرخ ہیں یاد شہداء میں
پھیکا ہے بہت رنگ عقیق یمنی کا
ڈاکٹر دھرمیندر ناتھ یوں بولے
میں ہوں ایک بندہ احقر مگر یہ نازل ہے مجھ کو
عقیدت ہے محمدﷺ سے علی ؑ سے، آل حیدر سے
میری فکر ونظرکومل رہی ہے روشنی پیہم
مدینے سے، نجف سے، کربلا کی خاک اطہر سے
آخر پر ایک مسدس
یہ کون سی مستورہے کیا مانگ رہی ہے
ہر صاحب غیرت سے ردا مانگ رہی ہے
اسلام کی خدمت کا صلہ مانگ رہی ہے
پردیس میں مرنے کی دعا مانگ رہی ہے
افسردہ فلک ہے تو ستم خوردہ زمیں ہے