میرا قائد سیکولر کیوں بنایا جا رہا ہے

تحریر:پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
قائد اعظم محمد علی جناح ایسے مردِ قلندر تھے کہ اُ ن ساکوئی بر صغیر کی تاریخ میں پیدا ہی نہیں ہوا۔میرادعویٰ ہے کہ تحریک آزادی کے اس پیکر کا کوئی ہمسر تلاشا ہی نہیں جا سکتا ہے۔ہندوستان کی تحریکِ آزاد ی کے دوران نہرو اور گاندھی اور دیگر سیاسی قائدین میرے قائد کے کسی پاسنگ میں آتے ہی نہیں تھے۔ میرا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر وہ اکیلے ہندوستا ن کی تقسیم کا مخالف ہوتے اور پوری کانگریسی قیادت ہندوستان کی تقسیم کی علمبردار ہوتی تو بھی ہندستان ہر گز تقسیم نہ ہوتا۔کوئی ایک مثال بھی میرے قائد کے اپنے قول سے انحراف کی پیش نہیں کر سکتا ہے۔ جبکہ کانگریسی قیادت کے قول و فعل کا تضاد ہر موڑ پر دیکھا جاسکتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ کانگریسی قیادت روزا نہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتی رہی تھی ۔اگر کوئی بات میرے قا ئد نے کی تو اُس سے اُس نے سر مو بھی انحراف نہ کیا ۔قائد اعظم اپنی بات کے پکے اور قول کے سچے تھے۔جہاں تک مذہب کا تعلق ہے وہ پکے اور سچے مسلمان تھے۔ان کے اندر رجعت پسندی لا مذہبیتی اور سیکولرزم کا شائبہ تک نہ تھا۔گو کہ کانگریس ایک سکولر جماعت تھی اور وہ ہندوستان میں سیکولر نظام کے نفاذ کی بھی دعویدار تھی۔اسی حوالے سے کانگریس کے کئی ررہنماء بھی جن سے محمد علی جناح خود بھی متاثر تھے ہندوستان میں اپنی سیکولر سیاست کر رہے تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح ڈیڑھ عشرے تک اُس سیکولر جماعت کانگریس سے منسلک بھی رہے تھے ۔اگر وہ سیکولر ذہنیت سے متاثر بھی ہوتے تو کیونکر ہندوستان کی مسلم سیاست کا حصہ بنتے؟؟؟اگر وہ ہمارے سیکولر ذہنیت کے نام نہاد دانشوروجو اسلام سے خائف ہیں کی نظر میں اگر قائد اعظم سیکولر تھے تووہ اس بات کا جواب دیں کہ قائد اعظم نے مسلمانوں کے حقوق اور نظریات کی سیاست کرنے والی جماعت مسلم لیگ کا حصہ بننا کیونکر گواراکیا؟؟کیا یہ بہتر نہ تھا کہ وہ کانگریس کی ہی سیاست کرتے !جبکہ کانگر یس کی بعد کی لیڈر شپ میں ان کے پائے کا کوئی سیاست دان موجود ہی نہ تھا اور آزادی کے وقت وہ ہندوستان کی سیاست میں نمایاں حیثیت کے مالک بھی ہو تے اس طرح کو ہندوستان کی قیادت کے حوالے سے اہم مقام کے حامل سیاست دان ہوتے۔مگراس کے باو جو د کہ مسلم لیگ نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ناصرف ابھارا بلکہ مسلمانوں کی ہی سیاست کے لئے کام کرتے رہنے کا عزم بھی کیا ہوا تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود انہوں نے 10 ،اکتوبر1913کومسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے اس فعل سے یہ اندزہ کرنا ہر گز مشکل نہ ہونا چاہئے کہ نا تو میرے قائد سکولر تھے اور نہ ہی وہ 1920 کے بعد سیکولر جماعت کا حصہ رہنا چاہتے تھے۔وہ واضح ذہن کے پکے اور سچے مسلمان تھے۔ قائد اعظم کی اسلام سے وابستگی کا اندازہ ان دو باتوں سے لگایا جاسکتا ہے کہ اول ،جب انہوں نے ایک پارسی خاندان کی چشم و چراغ رتن بائی سے شادی کی تو پہلے اُس خاتون کوممبئی کے ایک مشہور سنی عالم دین کے ہاتھوں قبول اسلام کرایاپھر اُس سے اسلامی طریقے پر نکاح کر کے شادی سے سرفراز ہوے۔دوم،اسی طرح جب ان کی اکلوتی اور لازڈلی بیٹی دینا نے جو شادی سے قبل قائد اعظم کی آنکھ کا تارا تھی۔مگر جب اس نے مسلما ن کے بجائے ایک پارسوی نوجوان سے شادی کرلی تو میرے قائد نے ساری زندگی کے لئے اپنی لاڈلی بیٹی سے تعلقات منقطع کر لئے۔بعض نام نانہاد لکھاری قائد کے اس اقدام سے بھی منکر ہیں۔اس ضمن میں وہ اپنے دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لئے دینا کی قائد کے ساتھ شادی سے قبل کی تصا ویرچھاپ کر دکھاتے ہیں کہ وہ قائد سے ملتی رہی ہیں۔میرا کہنا یہ ہے کہ میرے قائد کے قول و فعل میں تضاد ہر گز نہ تھا۔ وہ جو کچھ کہتے تھے وہ کرتے بھی تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود بھی بھی یہ بات تحریر کرتے ہیں کہ جب میر قائد انگلستان سے مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کے لئے تشریف لائے تو ممبئی میں انہوں نے سب سے پہلے عید میلاد النبی کے جلسے میں شرکت فرمائی۔کیونکہ میرے قائد کا رول ماڈل حضرت محمد ﷺ ہی تھے۔ مغرب سے متاثر ہ اور دینِ حنیف سے خائف یہ نام نہاد دانشور خوامخواہ پاکستان کے قائد اعظم پر سیکولر ہونے کے جھوٹے کا دعوے کرتے تھکتے نہیں ہیں۔میرے قائد کا کوئی ایک قول بھی یہ لابی سیکورزم کے حوالے پیش کرنے سے قاصر ہے۔رہا 11،ستمبر1947کو پاکستان کی اسمبلی میں کی گئی پہلی تقریر کا معاملہ تو اُس میں بھی نام نہاد دانشور گنجلک پیدا کرنے کی کوشش کر تے ہیں ذہنوں میں یہ با ت واضح ہوجانی چاہئے کہ11 ،اگست کی قائد اعظم کی تقریر کے پیرا گراف نمبر دو کی پہلی دو لائنوں میں میرے قائد نے فرمایا تھا کہ ، میں اسمبلی کے اس ابتدائی فنگشن میں کوئی باضابطہ سوچا سمجھا اعلان تو نہیں کرسکتا….پھر قائد نے فرمایا کہ ،وقت گذرنے کے ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیگا مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ میرا مطلب مذہبی اعتبار سے ہرگز نہیں ہے، گویا پاکستانی شہری ہونے کے ناطے سب آپس میں گھل مل کر بحیثیت پاکستانی رہیں گے مگر مذہبی نقطہ نگاہ سے ہر چیز اپنی جگہ ہر مذہب کے نکتۂ نگاہ سے رہے گی۔ جو اسلامی روا داری کا بھی تقاضہ ہے اور سنتِ رسول عربی بھی ہے ۔ جس کا میرے قائد نے بھی پاکستان کی قومی اسمبلی کی اپنی پہلی تقریر میں اعادہ کر دیا تھا۔ابتدائی دور کی ہر اسلامی حکومت نے اپنی غیر مسلم رعایا کے ساتھ یہی اصول اپنایا ہوا تھا۔سو سے زیادہ اقوال قائد اعظم کے اسلامی ہونے اور پاکستان کو اسلام کے طریقے پر چلانے کیلئے میںپیش کر سکتا ہوں۔مگر کوئی ایک دانشور بھی سیکولر ریاست کی حولے ایک قول بھی قائد اعظم کا پیش نہیں کر سکتا ہے۔ان کے پاس لے دے کر 11 ستمبر1947کی قائد اعظم کی تقریر رہ جاتی ہے۔جو یہ اپنی جھینپ مٹانے کے لئے سب کے سب پیش کرتے رہتے ہیں۔ اسلامی ریاست کے ضمن میںقائد اعظم محمد علی جناح نے 13جنوری کو1946 سلامیہ کالج پیشاور میںاساتذہ وطلباء سے خطاب کرتے ہوے فرمایا تھا کہ ،ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا۔بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا ہمارا مقصدتھا جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں، گویا میرے قائداعظم بھی پاکستان میں آئین اسلامی کی ہی بات کر رہے تھے۔اسی طرح ایک اور موقع پر پاکستان کی حکومت اور آئین کے سلسلے صوبہ سرحد کے سبی دربار سے 14 فروی 1948 کو خطاب میں فرماتے ہوے کہتے ہیں کہ ، مجھے معلوم نہیں کے پاکستان کے بننے والے آئین کی شکل وشباہت کیا ہوگی لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر ترتیب دیاجائے گا۔ وہ آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سوسا قبل قابل عمل تھے۔ اسلام اور اس کے نظریات ہمیں جمہوریت کا سبق دیتے ہیں ۔جو ہمیں انصاف ،انسانی مساوات اور ہر شخص کے ساتھ بہتر رویہ کی تلقین کرتاہے….. میرا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات پیغمبرِ اسلام کی کے پیش کردہ سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہو نے میں ہی ہے۔ آیئے ہم اپنی جمہوریت کی عمارت کوحقیقی اسلامی نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر استوار کریں، کوئی بتائے کہ ہم بتائیں ! کہ قائد اعظم جمہوریت کی بساط اسلامی اصولوں کو قرار دیتے ہیں۔اسلام سے برگشتہ مغرب زدہ طبقات اس ملک میں ننگ دھڑنگ معاشرہ پیدا کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں اور بد قسمتی سے مذہب کا ٹھیکیدار طبقہ فوعی تعصبات سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ماہ فروری 1948کو قائد اعظم نے ریڈیو پاکستان پر اپنے کے خطاب میں یہ ہی فرمایا تھا کہ ، ُپاکستان کا آئین ابھی پاکستان کی قومی اسمبلی کو بنانا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم اسکی شکل و شباہت کیا ہوگی ۔ مجھے یہ یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جو اسلام کے اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ جو آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سوسا قبل قابل عمل تھے ۔ اسلام اور اسکے نظریات ہمیں مثالی جمہوریت کا درس دیتے ہیں۔ جو ہر ایک کو بھائی چارے ،انسانی برابری ، انصاف اور اچھائی کا درس دیتاہے،پاکستان کی معیشت کے سلسلے میں یکم جولائی 1948 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوے پاکستان کی معیشت کے سلسلے میں بانیِ پاکستان بڑے واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ ،مغرب کا معاشی نظام انسانیت کیلئے پہلے ہی معاشی مسائل پیدا کر رہا ہے جسکا اس وقت ساری دنیا کو سامناہے۔ جس کی تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔یہ (نظام) بین الاقومی طور پر دنیا کو انصاف فراہم نہیں کر سکتا ہے۔ یہ انسانیت کو انصاف دینے میں ناکام ہوگیا ہے …. مسلمانوں کو دنیا کے سامنے ایک مثالی حکومتی نظام پیش کرنا چاہئے۔ انہو نے کہا کہ ہم ایسا نظام پیش کرتے ہوے مسلمان کے طور پر اپنے فرئض ادا کر رہے ہوں گے ، قائد اعظم کے کردار سے واقف ہر شخص کا کہنا ہے کہ قائد اعظم کے قول و فعل میں کہیں تضاد نہ تھا اور ہمارے مغرب زدہ نام نہاد دانشور اور مغرب زدہ نام نہادسو ل سوسائٹی میرے قائد کے قول و فعل کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے متضاد قرار دیتے ہوے شرم بھی محسوس نہیں کرتے ہیں۔میںسوال کرتا ہوں کہ کیا ہمارے قائد بیک وقت دوقسم کی بات کرتے تھے؟ آپکا جواب یقیناَ یہ ہو گا کہ ہر گز نہیںکیونکہ میرا قاید کبھی بھی وہ بات نہیں کرتا تھا جو اسکے دل میں نہ ہو اور نہ ہی وہ کبھی جھوٹ کا سہارا لیتا تھا۔ یہی میرے قایدکا کر دار تھا اس بات سے انکا بڑے سے بڑا مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا ہے۔ تو پھر ہم کیوں اپنے معصوم رہنما پر بہتان طرازی پر اتر آئے ہے۔ خدارا پاکستانی قوم پرظلم مت کیجئے۔ اس پر رحم کھائے یہ بہت معصوم ہے۔اس کو اس کے ٹریک سے ہٹانے کی کوشش مت کیجئے۔ میرا قائد سیکولر ہر گز نہ تھا۔میرے قائد کے لئے جھوٹ اور ڈھٹائی کا سہارا مت لیجئے۔جن مقاصد کے لئے یہ ملک تخلیق ہوا تھا ان مقاصد کے تحت اس کو آگے بڑھنے دیجئے اپنی اور اپنی نسل کی عاقبت چند مغرب کے سکوں پر خراب مت کیجئے۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی اکثر این جی کو مغرب اور مغرب زدہ م غرب کے ایجنٹ کر رہے ہیں…اسلام سے برگشتہ اور غیر اسلامی نظریات کے حامل چند بد طینت افراد اس معاشر کو بے لباس کرنے پر کمر کس کے بیٹھے ہیں۔مگر وہ اپنے مذمام مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں گے۔