Home » Article » قانون کے مطابق انصاف کرنے کی سزا تبادلے کی شکل میں ملی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر:علامہ پیر محمد اشرف شاکر

قانون کے مطابق انصاف کرنے کی سزا تبادلے کی شکل میں ملی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر:علامہ پیر محمد اشرف شاکر

جب کوئی آفسر منصف کے روپ میں دیانتداری و ایمانداری سے خدا کی مخلوق کو انصاف مہیا کرتا ہے ۔ اس کی قلم وطن و قوم کے مفاد میں حق لکھنے کے راستہ پر چلتی ہے ۔ تو پھر حق کہنے اور لکھنے کی پاداش میں تکلیفیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں اور کچھ مفاد پرست گروہ اعلیٰ آفسر شاہی کے بھیس میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بیٹھے ہیں ۔ ان کا مقصد خاص پورا نہ کرنے پر کسی بھی نیک نامی آفسر کو کوٹھے لائین لگانے میں دیر نہیں لگاتے ۔بغیر سفارش و لالچ کے کام کرنے والے آفیسروں کو یہ راشی و کرپٹ اعلیٰ منصب کے بیوروکریٹس کے علاوہ سیاستدان بھی برداشت نہیں کرتے ۔ ان کو ہر ضلع میں وہ آفیسرچاہے جو خود بھی رشوت کے دریا میں غوطہ لگائے اور ان کے بھی ہاتھ دھلوائے اور جائز و ناجائز کام فون کے علاوہ سیاسی پناہ گاہوں میں ہوں ۔ اس روایت کو سابقہ ڈی سی او ڈاکٹر پرویز احمد خاں نے مکمل طور پر ختم کر دیا تھا ۔ خان صاحب سیاسی لوگوں کو اخلاقی طور پر چائے و پانی پلاتے مگر کام وہ کرتے جس کے متعلق ان کا دل گواہی دیتا تھا ۔ غریبوں اور بغیر سفارشیوں کے مسائل پہلی فرصت میں احساس مندی کے ساتھ حل فرماتے ۔ ڈاکٹر پرویز احمد خاں کو بھی سیاسی نظر لگ گئی ۔ کسی سیاست دان نے وزیر اعلیٰ کے کانوں میں پھونک لگائی جس کا اثر ہو گیا ان کے بعد ایک اور ڈاکٹر اعجاز منیر نے ضلعی کوآرڈینشن کا قلمدان سنھبال لیا یہ نہایت شریف اور محب وطن ڈی سی او تھے وزیر اعلیٰ نے اپنے گوجرانوالہ دورے کے دوران رمضان بازار میں آٹے کا ٹرک تاخیر سے پہنچنے پر ڈی سی او کی چھٹی کرا دی ۔ البتہ دلچسپ بات ہے کہ یہ واحد فیصلہ تھا جس کا خادم اعلیٰ کو بھی دکھ ہوا چنانچہ لفظ معطل ادا کرنے کے ساتھ ہی ٹرک سستا بازار میں داخل ہو گیا ۔ میاں صاحب نے افسوس سے ٹھنڈا سانس لے کر کہا کاش معطل کا جملہ بولنے سے قبل ٹرک آ جاتا ۔ البتہ میاں صاحب کے متعلق مشہور ہے اگر کسی افسر کی ٹرانسفر یا معطلی ہو گئی پھر کوئی افسر قسمت والا ہی ہے جس کے آرڈر کینسل ہوںیا پھر سیاسی طاقت کا زور ہو یا ان کے مشیران و سیکرٹریان کے لئے رشوت کا اندرون خانہ انتظام ہو ۔ جس کی مثال واضع ہے کہ سستا رمضان بازار کی چیکنگ کے دورانTOR نندی پور ٹاؤن خدا داد تارڑ کو بھی وزیر اعلیٰ نے معطل کیا ۔ مگر ان کی کزن سمیرا تارڑMNAنے سیاسی پاور کے ذریعے وزیر اعلیٰ سے دوبارہ بحال کروا کرTORکی سیٹ پر تعینات کروا دیا ۔ جو آفیسر رشوت کولعنت سمجھنے والے ہیں جن کو کوئی مفاد و لالچ نہیں ہوتا صرف اور صرف تنخواہ پر گذارا کرتے ہیں ان کو اپنی (روٹین ورک) ٹرانسفرکا افسوس نہیں ہوتا ۔ یہ جہاں بھی ڈیوٹی سرانجام دیں گے تنخواہ تو ملے گی چنانچہ ان کی ناجائز ٹرانسفر کا اصل نقصان غریب و شریف عوام کو ہوتا ہے جس طرح حال میں ہوا کہ ایماندار ، انصاف پسند حکومت کے ہمدرد ، سماجی و فلاحی کاموں میں عوام کا ساتھ دینے والے اور ٹیکس چوروں کو نکیل ڈالنے کے علاوہ بھتہ خور ، ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور بدمعاشوں کو قانون کے مطابق پابند سلاسل کرنے والا بہادر و دلیر فرشتہ صفت شخصیت آر ٹی اے سیکرٹری عبدالغفور چوہدری صاحب ہیں۔ پنجاب کے ہر ضلع میں رمضان المبارک میں چینی کی قلت رہی مگر انہوں نے چینی کا سٹاک گوجرانوالہ میں ختم نہیں ہونے دیا ۔ ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ ان کی کھلی جنگ تھی چنانچہ اس مرد قلندر نے جرائم پیشہ افراد کی تمام آفرز کو ٹھکرا کر صرف وزیر اعلیٰ کے ایجنڈے پر عمل ہی نہیں کیا بلکہ ان کے نیک مشن کے پاسبان بنے ۔ ہمارا شہر پہلوانوں کا ہے ۔ کچھ سرمایہ دار ، بدمعاشوں کے روپ میں نیک سیرت افسروں سے کشتی کرتے ہیں اور کبھی دولت کے زور پر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں جس طرح آر ٹی اے سیکرٹری کے ساتھ ہوا ۔ کچھ عرصہ قبل جی ٹی روڈ کے قریب گورنمنٹ فیس ہڑپ کرکے بغیر نقشہ کے غیر قانونی تعمیر ہونے والا شاہین پلازہ کو بحکم کمشنر، آر ٹی اے سیکرٹری نے سیل کر دیا ۔ جو قانون شکن پلازہ مالکان سرمایہ داروں کے منہ پر طمانچہ تھا ۔ انہوں نے آر ٹی اے سیکرٹری پر بہت پریشر ڈالوایا یہ ایک انصاف پسند افسر ہی جانتا ہے جب کوئی خطرناک مچھلی جال کے اندر پھنس جائے تو کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ آخر سرمایہ داروں کا ہاتھ وزیر اعلیٰ کے ڈپٹی سیکرٹری نادر چٹھہ کے قدموں پر پہنچ گیا ۔ چٹھہ نے اپنے عہدہ کی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے عبدالغفور چوہدری کو حکم دیا پلازہ کھول دیں ۔ اعصابی مضبوطی سے جواب آیا ( آپ کا حکم بجا) اگر سرکاری فیس جمع کروا کر نقشہ نیا کروا لیتے ہیں تو ضابطہ کے مطابق پلازہ اوپن کر دیا جائے گا فوری حکم نہ ماننے پر نادر چٹھہ نے اپنی کاریگری دکھائی ، وزیر اعلیٰ کو غلط گائیڈ کرکے آر ٹی اے سیکرٹری کی ٹرانسفر کروا کر ( کھڈے لائن) لگا دیا ۔قانون کے مطابق انصاف کرنے کی سزا تبادلے کی شکل میں ملی ۔ معتبر ذرائع سے پلازہ مالکان کا دوبئی میں بہت بڑا گیسٹ ہاؤس جہاں جا کرڈپٹی سیکرٹری نادر چٹھہ سکون حاصل کرتے ہیں اورسرمایہ داران کی جسمانی و ظاہری خدمت گذاری کرتے ہیں اب وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہاتھ میں انصاف کا قلم ہے چاہے میرٹ پر کام کرنے والے آر ٹی اے سیکرٹری کا تبادلہ روک کر عوام گوجرانوالہ کے دل چیت لیں یا اس کے برعکس ڈپٹی سیکرٹری کا حکم مان لیں ۔ میاں صاحب کی نیک نیتی سے کون واقف نہیں چند دن قبل وزیر اعلیٰ شکایت سیل میں ہونے والا عجیب کھیل منظر عام پر آیا کہ دو ڈائریکٹر ایک فلمی ایکٹر کو انصاف دینے کے لئے آپس میں جھگڑ پڑے اور گلو کارہ حمیرہ ارشد کو دیکھ کر یہ دونوں منہ سے جھاگ چھوڑنے لگے ان کے آفس سے خالی شراب کی بوتل بھی برآمد ہوئی ان کی ذلیل حرکت پر وزیر اعلیٰ نے دونوں کو معطل کرکے ثابت کر دیا کہ عیاش پرست و شرابی افسروں کو اپنی ٹیم میں برداشت نہیں کریں گے ۔ گوجرانوالہ کے شریف شہریوں کی وزیر اعلیٰ سے پر زور اپیل ہے کہ ڈپٹی سیکرٹری عیاش پرست دولت کے مست نادر چٹھہ کو بھی طلاق دے کر اپنی ٹیم سے فارغ کرکے اپنی نیک نامی انصاف پسند ساکھ کو محفوظ رکھیں ۔ وزیر اعلیٰ کے لئے لمحہ فکریہ ہے اگر آر ٹی اے سیکرٹری کی ٹرانسفر کینسل نہیں فرماتے تو ہزاروں ترقیاتی کام( کھوہ کھاتے ) چلے جائیں گے ۔ حال ہی میں انہوں نے ٹرانسپورٹ اڈہ میں مسافر خانہ تعمیر کروانے کے کام شروع کیے تمام اڈوں سے غیر قانونی جگا سسٹم ختم کر دیا اور ناجائز تجاوزات کو ہٹانے میں بھی پیش پیش تھے عوام کے مفاد اور شہر کے ترقیاتی کاموں میںہر وقت کمر بستہ رہتے ۔ ایسے فرض شناس آفیسر کی گوجرانوالہ میں بہت اشد ضرورت ہے ۔ امید واثق ہے وزیر اعلی پنجاب شہریوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے نظر ثانی فرما کر آر ٹی اے سیکرٹری کا تبادلہ منسوخ کر دیں گے ۔