Home » Article » کیری لوگر بل اور سیاستدانوں کا رویہ۔ ۔ ۔ تحریر: مہر محمد امین

کیری لوگر بل اور سیاستدانوں کا رویہ۔ ۔ ۔ تحریر: مہر محمد امین

پاکستان اور پاکستانی قوم مشکل ترین آزمائش سے گزرر ہے ہیں جب برا وقت آتاہے اور قدرت کسی کو اس کے کئے کی سزا دیتی ہے تو اس کا پہرے دار اس کا دروازہ اکھاڑ دیتا ہے۔ زمین و آسمان کے سارے ذرے آزمائش کے وقت اللہ کے لشکر بن جاتے ہیں اور اللہ تعالی توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں تو نے ہوا کو دیکھا کہ اس نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا اور تو نے پانی کو دیکھا اس نے طوفان نوح میں کیا کیا اور تو نے غضبناک دریا کودیکھا اس نے فرعون کے ساتھ کیا کیا اور زمین نے قارون کے ساتھ کیا کیا اور ابابیل نے ہاتھیوں کے ساتھ کیا کیا اور مچھر نے نمرود کے ساتھ کیاکیا۔پاکستانی قوم جس کٹھن مراحل سے گزر رہی ہے وہ پریشانی اپنی جگہ بجا سہی تاہم ہمارا پہرے دار مخلص ہے اور ہمارا پہرے دار ہمیں بچانے کے لئے ہر محاذ پہ لڑ رہاہے اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ ہمارا پہرے دار ہماری فوج ہے جس نے ہمیشہ وفا اور قربانی کی تاریخ رقم کی ہے اور اب دہشت گردوں سے اس ملک کو بچانے کے لئے برسر پیکار ہے ۔ بعض فوجی آمروں نے ملک کے اقتدار پہ غیر قانونی قبضہ کرکے فوج کے امیج کو تار تار ضرور کیا مگر فوج کی قربانی سے یہ قوم انکار نہیں کرسکتی ہماری فوج ہی ہماری بقاء کی علامت ہے اور اس ملک کے سیاستدانوںنے اپنی نا اہلی اور ملکی و قومی وقار سے کھلواڑ کرکے اپنے غیر سنجیدہ ہونے کا ثبوت ہمیشہ دیا۔ ملک کسی بھی صورتحال سے گزر رہا ہو سیاستدان صرف سیاست چمکاتے ہیںاور ہمارے پہرے دار ہی حالات کی نزاکت کاتدارک اور مقابلہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہرمشکل اور آڑے وقت میں عوام الناس کی نظریں فوج کی طرف اٹھتی ہیں۔ اس وقت ملک میں امریکی امداد کے کیری لوگر بل پر بحث جاری و ساری ہے اس بل کی تفیصلات میں جائے بغیر ہم نے صرف یہ تجزیہ کرناہے کہ اس ایشو پر جو کہ بہت ہی اہم ایشو ہے اس ایشو پر بھی ہمارے سیاستدانوں کا رویہ سیاسی اور غیر سنجیدہ ہے اور ملک کی سلامتی و بقاء پر متفکر صرف عوام اور فوج ہے۔ اس اہم ایشو پر کور کمانڈرز اجلاس ہوا جو تمام دن جاری رہا اور پوری عرق ریزی ہوئی دوسری طرف پارلیمنٹ میں یہ بل زیر بحث آیا تو اراکین اسمبلی نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور اسمبلی کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ختم کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کی تقریر پر ریاض پیرزادہ نے توجہ دلوائی کہ کورم پورا نہیںلہذا اجلاس ملتوی کردیاگیا اور جو لوگ ایوان میں موجود تھے وہ ٹولیوں کی صورت میں الگ الگ تبادلہ خیال کرنے اور خوش گپیوںمیں مصروف تھے اس پرفضل کریم کنڈی نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ایوان گپ شپ کے لئے نہیں اگر اراکین اسمبلی نے گپ شپ کرنی ہے تو وہ لابی میں چلے جائیں۔ یہ احساس ذمہ داری ہے ہمارے اراکین پارلیمنٹ میں۔ ملک کی سلامتی اور ایک اہم سیاسی بین الاقوامی ایشو پر ہمارے ممبران اسمبلی کا یہ رویہ ہے جبکہ آئینی طور پر پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے۔ ملک کے تمام فیصلے انہوں نے کرنے ہیں اگر ایک برننگ ایشو Burning Issue پر یہ دلچسپی ہے ممبران پارلیمنٹ کی تو اسمبلی سے ہم کیا توقعات وابستہ کرسکتے ہیں کہ یہ لوگ ہمارے قومی وملکی مسائل کوکیسے سلجھا سکتے ہیں ،کیا قانون سازی کرسکتے ہیں اتنے اہم ایشو پر کورم پورا نہیں ہوا ، اراکین اسمبلی نے اس میں حصہ لینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جو لوگ اسمبلی میں موجود تھے وہ الگ الگ ٹولیوں میں اپنی باتو ںمیں مگن تھے۔ یہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے او ریہ اس منصب سے بے وفائی ہے جو انہیں عوام نے سونپا ہے اور اپنی اہم ذمہ داریوںسے بغاوت ہے۔ ہمارے اراکین اسمبلی کے فرائض کیا ہیں اور وہ اسمبلی میں لینے کیا جاتے ہیں اگران کی دلچسپی قومی وملکی امور میں اس قدر قلیل ہے تو وہ یہ نعرہ کیوں لگاتے ہیںکہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے ایسے معاملات کوپارلیمنٹ میں لایا جائے۔ قومی اسمبلی ملک کا سب سے بڑا مقدس ادارہ ہے جس نے ملک و قوم کے لئے قوانین بنانے ہوتے ہیں تاکہ قوم کو درپیش مسائل سے نجات دلائی جائے۔ عوام الناس قومی اسمبلی کو اپنے دکھ درد کا مداوا سمجھتے ہیں مگر قومی اسمبلی کا رویہ ہمیشہ غیر سنجیدہ رہا۔ یہ نئی بات نہیں یہ غیر سنجیدگی صرف کیری لوگر بل میں نہیں بلکہ جب قومی اسمبلی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا جس کا ایجنڈا تھا کہ دہشت گردی سے نجات، خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے کیسے نمٹا جائے اور کیسے بچا جائے جو کہ پوری قوم کابہت بڑا مسئلہ ہے ہر شہری خوف اور دہشت کے ماحول میں سانس لے رہا ہے اتنے اہم اور حساس ایشو پر ہونے والے قومی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں 420 اراکین اسمبلی کی تعداد میں سے صرف 100 ممبران نے اجلاس میں شرکت کی تھی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی کوہماری کتنی فکر ہے یہ ان کی قومی سوچ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملک کے سب سے اہم اور گھمبیر مسئلہ کے حل کے لئے بھی ان کے پاس وقت نہیں ان کی دلچسپی نہیں۔ اس طرح ملک کے اہم اورحساس ایشو پر قومی اسمبلی کے اراکین کی عدم دلچسپی ناقابل معافی جرم ہے او رہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے ممبران اسمبلی محض اس لئے اسمبلی تک پہنچتے ہیں کہ ان کا معاشرے میں سٹیٹس ہو، ان کو پروٹوکول ملے۔ ڈی سی او ، کمشنر، سی پی او ان کے آگے پیچھے ہوں او رمال مفت دل بے رحم کے مصداق قومی دولت کو دونوں ہاتھوں دونوں پاؤں سے لوٹیں اور اپنے بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں اور خاندان، برداری کو سرکاری نوکریاں لے کردیں۔ مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے بذریعہ پولیس ذلیل و رسواء کریںاورکروڑوں روپے کے ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے منظور نظر لوگوں کو دلوائیں اور ترقیاتی فنڈز میں خورد برد کریں ۔ عوام الناس کی طرف سے یہ پیغام میں اراکین اسمبلی کودیتا ہوںجو ہماری عوام الناس کی حالت ہے اور ممبران اسمبلی کی حالت ہے اس پہ یہی کہا جاسکتا ہے۔

ا س طرف اپنا دامن جلے گا

اس طرف ان کی محفل سجے گی

ہم اندھیرے کو گھر میں بلا کر

ان کے گھر میں اجالا کریں گے