Home » Article » بھارتی الیکشن اور پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر:روف عامر پپا بریار

بھارتی الیکشن اور پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر:روف عامر پپا بریار

ٹیگور نے کہا تھا روشنی جہاں سے ملے حاصل کر لو یہ مت دیکھو مشعل بردار کون ہے ۔منموہن سنگھ نے اپنے وزا کے ساتھ دوسری مرتبہ اٍنتہائی سادگی سے بھات کے پردھان منتری کا حلف أٹھا لیا۔ تقریب حلف وفاداری کے ناقابل فراموش مناظر دیکھ کر ایک طرف دل میں طمانیت کے سمندر بہہ أٹھے تو دوسری طرف من میں سوز و گدز بھی کرلانے لگا۔خوشی اٍس لئے کہ چلو سارک کے کسی ملک میں دیوی جمہور کا حسن ڈکٹیٹرشپ کے تاریک اندھیروں میں نور ہویدا کررہا ہے۔ہم گریہ زاری پر مجبور یوں ہوئے کہ ایک ہی روز ازادی حاصل کرنے کے باوجود ہمارے ہاں جمہوریت کا پودا پنپنے میں ناکام رہا اور شو مئی قسمت فطرت یذداں نے ہمیں قائد اعظم قائد ملت حسین شہید سہروردی قائد عوام بھٹو اور دختر مشرق بے نظیر بھٹو ایسے بلند قامت رہنما عطا کئے تو ایٹیبلشمنٹ کے گوریلوں ضمیر فروش سیاسی لٹیروں اور فرعون ٹائپ فوجی جرنیلوں نے ایکا کرکے أنہیں ہلاک کردیا یوں ساٹھ سالوں میں جمہوریت کی کبریائی کا خواب ہنوز تشنہ طلب ہے۔بھارتی صدر پر تیبھا پٹیل نے سر پر پلو صدر سے زیادہ منکسر المزاج منموہن سنگھ سوتی کپڑوں اور نیلے کپڑوں جبکہ پرناب مکھر جی اور دیگر نے بھی سادگی کے اعلی اوصاف کا پلو تھام رکھا تھا۔بھارتی عوام مبارکباد کی مستحق ہے کیونکہ أنہوں نے الیکشن میں کانگرس کو ووٹ دیکر فرقہ واریت کے آدم خور تشدد پسندوں کو شکست کے سمندر میں ڈبودیا۔ہندو مسلم فسادات کی آبیاری و آبپاشی کرنے والے بھی ہار گئے جیسا کہ پاکستان میں ہونے والے سابقہ الیکشن میں قوم نے دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے ایم ایم اے کے ملاوں کو غریق شکست بنایا۔اب جبکہ پاک بھارت میں دواعتدال پسند جماعتیں پی پی و کانگرس برسر اقتدار ہیں دونوں کو خطے میں پائیدار امن کے لئے روز روشن و طلسماتی کردار ادا کرنا چاہیے۔ہمارے میڈیا حکمرانوں ایجنسیوں اور دینی رہنماوں نے بھارت کے متعلق قوم کے ازہان میں صرف چند امور پختہ کیے کہ بھارت پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن ہے۔ہندو مسلم تفرقہ پرستی کا نام لیکر ہمیں درس دیا گیا کہ ہندوو مسلمانوں کے دشمن ہیں اور بال ٹھاکرے ایسے کٹر معتصب لیڈر بھارت کو مسلمانوں سے پاک کروانے کے لئے ہر قسم کی دہشت گردی کو مسلمانوں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔یوں بھارت کو عوام کے سامنے نفرت زدہ سماج کے روپ میں پیش کیا مگر ہمیں ہندوستان کے سماج جمہوری عمل سیاسی رواداری اور اٍنتخابی عوامل کے مثبت پہلووں سے دور رکھا گیا۔بھارت کا مستحکم جمہوری نظام وہاں کے دانشوروں ادیبوں،فنکاروں اور سول سوسائٹی کی انتھک محنتوں و جدوجہد کا شاخسانہ ہے۔یہ وہ جدوجہد ہے جس میں بابری مسجد کو بچانے کے لئے غیر مسلموں اور ہندووں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔یہاں ہم گاندھی جی کو بھی یاد کئے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوں نے مسلم ہندو فسادات میں مارے جانیوالے مسلمانوں کے لئے تادم مرگ ہڑتال کی تھی۔گاندھی نے پاکستان کو أنکے اثاثہ جات دلوانے کے لئے اہم کردار ادا کیا۔بھارتی وزیر اعظم کی تقریب بھارت کے پندرویں عام انتخابات کا آخری مرحلہ تھی۔منموہن سنگھ پہلے ٹینور سے زیادہ طاقتور بن کر سامنے ائے ہیں۔وہ اپنی معاشی پالیسیوں پر عمل درامد کے لئے اب مکمل خود مختیار ہیں کیونکہ پچھلے دور میں اتحادی أنکی راہ میں جا بجا کانٹے سجاتے رہے۔کہا جارہا ہے کہ اب منموہن کی پالیسیوں کی بدولت بھارت میں سرمایہ کاری کا سیلاب آئیکا بدیسی بھارتیوں کو دوگنے ثمرات حاصل ہونگے اور روزگار کے کئی مواقع پیدا ہونگے۔اٍن الیکشن میں کانگرس اور اتحادیوں کو یہ سبق ملا ہے کہ اب وہی پارٹی اقتدار کی کرسی پر فروکش ہوگی جو اپنے عملی اقدامات سے عوامی بھلائی کے نایاب پراجیکٹ مکمل کرے بھارتیوں کی قسمت سنوارے گی۔بھارتی الیکشن کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ سرمایہ دار لوگوں نے چند امیدواروں کی جیت کے لئے کالے دھن کو پانی کی طرح بہایا۔یہ طبقہ پاکستان میں بھی انتخابات میں نوٹوں کی بوریاں کھول دیتا ہے اور پھر یہی صنعتکار اپنے جیتے ہوئے امیدواروں کی معاونت سے کھربوں کے قرضے لیکر ہضم کرجاتے ہیں۔دونوں ملکوں میں انتخابی عمل کے دوران ایسے تاجر بیوپاریوں کی مداخلت کا روکا جانا لازم ہے۔ ہندوستان کے سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز نے سروے میں تخمینہ لگایا تھا کہ اٍس الیکشن میں دس ہزار کروڑ خرچ ہونگے۔یہ رقم امریکہ کے صدارتی الیکشن میں خرچ ہونے والی رقم سے کئی گنا زیادہ ہے۔مریکہ میں انتخابی مہم سارا سال چلتی ہے مگر وہاں اٍس سال صرف آٹھ سو کروڑ کی رقم خرچ ہوئی۔بھارتی پارٹیوں کو ملنے والے عطیات کی تفصیل جو آر ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو مہیا کی ہے۔أسکے مطابق بی جے پی کو تیرہ کارپوریٹ گھرانوں نے پچاس لاکھ تا پانچ کروڑ کی رقم دی ہے جبکہ چھ سرمایہ دار گھروں نے کانگرس کو اڑھائی کروڑ کی رقم مہیا کی۔دہلی ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس راجند سچر کا ایک مضمون میڈیا کی زینت بنا۔عطیات کے بارے میں أنکا نقطہ نظر سخت ہے۔وہ لکھتے ہیں ماضی میں عطیات دینے اور لینے والے اٍسکا اعتراف کرنے سے گریز کرتے تھے مگر اب ألٹی گنگا بہہ رہی ہے کیونکہ طرفین بیانگ دہل اقرار کرتے ہیں۔أنیوں نے1913 کے ایکٹ پر زور قلم صرف کرتے ہوئے لکھا کہ ایکٹ میں ایسے عطیات لینے پر کوئی پابندی نہیں اٍسی لئے عدالت اٍس کیس کے خلاف فیصلہ دینے کا حق نہیں رکھتی۔کانگرس کی صدر سونیا گاندھی اگر چاہتیں تو خود کرسی وزارت عظمی پر فائز ہوجاتیں مگر أنہوں نے مورثی سیاست کا خاتمہ کرکے منموہن کو ہی وزیراعظم نامزد کیا۔بھارتی تاریخ میں آج تک کسی فوجی جرنیل کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ جمہوری حکومت پر کلہاڑا چلاسکے۔بھارت کے پہلے چیف آف ارمی سٹاف نے فوج کو منظم کرنے کا بہانہ بنا کر نہرو سے دو سال کی توسیع مانگی تھی جس پر نہرو بگڑ گئے اور فوری طور پر ارمی چیف کو دفتر بلا کر مستعفی ہونے کا پروانہ تھما دیا مگر دوسری جانب پاکستان میں ابتدا سے ہی سرکاری امور میں فوجی افیسز کی مداخلت شروع ہوگی۔کرنل اکبر نے تو باقاعدہ قائد اعظم سے ملاقات میں فوجی آفیسز کی پوسٹنگ میں گڑ بڑ کی شکایت کی جس پر بانی پاکستان نے کہا کہ اگر اپکو سول حکومت کی پالیسیوں سے اختلافات ہیں تو اپ نوکری چھوڑ کرجاسکتے ہیں۔جنرل ایوب خان یحیی خان ضیاالحق اور جنرل مشرف نے پاکستان پر چار مرتبہ امریت کا جھنڈا لہرایا۔یہ چاروں امر ہماری تاریخ کے وہ بد بخت کردار ہیں جنکی ہوس اقتدار ایک طرف مشرقی پاکستان کو نگل گئی اور دوسری جانب اٍنہوں نے جمہوریت کی جڑیں ہی کاٹ لیں۔پاکستان میں ایک طرف منصفانہ الیکشن کے زریعے پی پی برسر اقتدار ائی ۔زرداری صدر مملکت بنے تو دوسری جانب مخالفین جمہوریت اور دشمنان پاکستان نے پی پی حکومت کے خاتمے کے لئے بیہودہ الزامات کا سہارا لے رکھا ہے۔آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تمام جماعتوں نے حکومتی پالیسیوں کی حمایت کا اعلان کرکے جمہوری روایات کا مظاہرہ کیا ہے جو نیک شگون ہے۔بھارتی الیکشن ایک طرف پاک فوج کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ بھارتی افواج کی پیروی کرکے سیاسی میدان میں کودنے کی حماقت نہ کریں تو دوسری طرف ارباب اختیار کا فرض ہے کہ وہ بھارت کے جمہوری نظام کے اچھے اوصاف کو اپنا لیں تاکہ یہاں جمہوریت کی ٹرین اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو۔قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے اور آئین کیsupermacy بحال کی جاوے۔حکمران ٹیگور کے اٍس جملے کی روشنی میں بھارتی سیاسی و جمہوری انداز و اطوار کو اپنانے میں حیل و حجت کا بہانہ مت کریں ٹیگور نے کہا تھا روشنی جہاں سے بھی ملے أسے حاصل کر لو یہ مت دیکھو کہ مشعل بردار کون ہے۔